Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 16

منزل عشق قسط 16
جنت جب سے وہاں سے آئی تھی اپنے کمرے میں لیٹی روتی جا رہی تھی۔معراج نے بہت مرتبہ اس سے رونے کی وجہ پوچھی لیکن جنت نے اسے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔
جنت کے مسلسل رونے پر معراج نے جانان کو بتایا تو وہ اس سے پوچھنے آئی۔
"جنت میری جان کیا ہوا؟"
ماں کا محبت بھرا لمس محسوس کر کے جنت اٹھی اور اس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"مما۔۔۔میں کیا کروں وہ ناراض ہو گئے مجھ سے بہت زیادہ ناراض۔۔۔سمجھ نہیں آ رہا کیسے مناؤں ان کو۔۔۔۔"
جنت کی بات پر جانان حیران و پریشان ہو کر رہ گئی۔
"پوری بات بتاؤ مجھے بیٹا ہوا کیا ہے؟"
جانان نے اس کو اپنے ساتھ محبت سے لگاتے ہوئے پوچھا تو جنت نے روتے ہوئے اسے ہر بات بتا دی۔
"اب میں کیا کروں مما۔۔۔۔مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟مجھے سمجھ نہیں آرہا وہ کیوں ناراض ہیں یا کیسے مناؤں انہیں۔۔۔"
اپنی بیٹی کی معصومیت پر جانان مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔جنت بالکل اس کے جیسی ہی تو تھی معصوم اور بدھو اور بالکل جانان کی طرح دو خاندانوں کو پھر سے جوڑنے کی کڑی تھی جنت۔
"تمہیں بھروسہ ہے مجھ پر جنت؟"
جانان کے پوچھنے پر جنت نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
"تو پھر جیسا میں کہتی ہوں بالکل ویسا کرو اور دیکھنا تمہارا دوست تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہو گا۔"
جانان کی بات سن کر جنت جلدی سے سیدھی ہوئی اور اپنے آنسو پونچھ دیے۔
"بتائیں مما میں کیا کروں؟"
جنت کے بے چینی سے پوچھنے پر جانان نے مسکراتے ہوئے اسے سب سمجھایا۔
"لیکن مما اگر بابا کو پتہ لگ گیا کہ میں نے ایک لڑکے سے ایسا کہا ہے تو؟"
جنت نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
"تمہارا دوست صرف کوئی لڑکا نہیں ہے وہ بہت خاص ہے اور جانتی ہو کیوں؟کیونکہ وہ تمہارے دل میں ہے۔۔۔اور اپنے بابا کی فکر مت کرو کچھ زیادہ ہی بگاڑ لیا ہے انہیں میں نے سدھار لوں گی۔"
جانان کی بات پر جنت کھلکھلاتے ہوئے ہنس دی اور اس کے گلے سے لگ گئی۔
"آپ اس دنیا کی سب سے بیسٹ مما ہیں۔۔۔"
جنت نے جانان کا منہ چوم کر کہا اور اسکے گلے سے لگ کر مسکرا دی۔کم از کم اب وہ جانتی تھی کہ اسے کیا کرنا تھا کچھ بھی ہو جاتا وہ بس اپنے دوست کو منانا چاہتی تھی۔
                       ❤️❤️❤️❤️
تین دن ہو چکے تھے ان دونوں کو سکردو میں خوار ہوتے ہوئے لیکن راگا کا کچھ بھی پتہ نہیں چلا تھا اور اب ہانیہ کی انتہا ہو چکی تھی۔
"انس مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ اب ہم کیا کریں بس ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے یہاں آکر اور کچھ نہیں۔۔۔"
ہانیہ کے غصے سے کہنے پر انس نے گہرا سانس لیا۔
"ہانیہ اگر یہ کام اتنا ہی آسان ہوتا تو اس وقت آرمی راگا کے پاس ہوتی۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ ہم اردگرد سے راگا کا پوچھ کر پھر سے کسی مصیبت میں پھنس جائیں۔"
انس کے بات میں حکمت عملی تھی لیکن ہانیہ کیا کرتی وہ ہر پل اپنی بہن کی پریشانی میں ہلکان ہو رہی تھی۔
"میں اسے کھو نہیں سکتی انس۔۔۔۔بہت معصوم ہے وہ۔۔۔"
اب کی بار ہانیہ پوری ہمت ہار کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔انس نے لاچارگی سے اسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا۔
"اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو ہانی وہ ضرور ہمارے لئے کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا دیں گے۔"
ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا اور اپنے آنسو پونچھ کر اسے دیکھا ۔
"میرا اتنا ساتھ دینے کے لئے شکریہ انس میں حیران ہوں کہ آج کی دنیا میں بھی کوئی ایسا شخص موجود ہے جو بغیر کسی لالچ کے کسی کی خاطر اپنی جان داؤ پر لگائے ہوا ہے۔"
ہانیہ کی بات پر انس ہلکا سا مسکرا دیا۔
"یہی ہم سپاہیوں کی زندگی ہے ہانیہ ہمیں یونہی بغیر کسی غرض کے اس ملک کی خاطر جینا ہوتا ہے تا کہ اس ملک کا ہر باشندہ آزادی سے سانس لے سکے۔۔۔"
ہانیہ نے مسکرا کر انس کو دیکھا۔
"تو اتنا تو مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے جان چھڑانے کے لیے آپ نے آرمی کی جاب چھوڑدی تھی پھر یہ آئی بی کی طرف کب آئے؟"
انس نے اس ماضی کو یاد کر کے گہرا سانس لیا۔
"میں آرمی نہیں چھوڑ پایا تھا ہانیہ کیونکہ ہم سپاہیوں کی نوکری کا ٹائم پیریڈ ہوتا ہے اس سے پہلے ہم نوکری نہیں چھوڑ سکتے۔میں نے ریزگنیشن بھیجا ضرور تھا لیکن وہ قبول نہیں ہوا۔۔۔۔"
"پھر ۔۔۔۔"
ہانیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
"جنرل شہیر نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھ سے نوکری چھوڑنے کی وجہ پوچھی اور میرے وجہ بتانے پر انہوں نے ہی مجھے آئی بی میں شفٹ کرو دیا تا کہ میں وہ کر پاؤں جو میں کرنا چاہتا تھا ملک کی خدمت۔۔۔"
"کیا وجہ بتائی تھی آپ نے جنرل کو؟"
ہانیہ کا دل نہ جانے کیوں اس سوال پر بہت زوروں سے دھڑکا تھا۔
"یہی کہ ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں کسی لیفٹیننٹ کرنل کی نہیں۔۔۔"
انس کے آنکھ دبا کر کہنے پر ہانیہ ہلکا سا ہنس دی۔
"آپ کو پتہ ہے میں ہمیشہ سے آرمی میں جانا چاہتی تھی۔ اپنے بابا جیسی بننا چاہتی تھی،ہیرو تھے وہ میرے اور وانی کے پھر۔۔۔۔"
اچانک ہانیہ بولتے بولتے خاموش ہوئی تھی۔
"پھر؟"
"پھر میری پھوپھو کی ڈیتھ ہوگئی،ان کے گھر میں کسی نے گھس کر انہیں اور سعد چاچو کو مار دیا۔اس کے بعد میرے بابا بالکل بدل گئے۔ وہ ہمارا خیال رکھتے تھے،ہماری ہر خواہش ہر ضرورت پوری کرتے تھے،لیکن کبھی بھی ہمیں پہلے جیسا پیار نہیں کرتے تھے۔"
ہانیہ کی پلکیں اب نم ہو چکی تھیں۔
"میں ان کے پاس رہنا چاہتی تھی ان کو بتانا چاہتی تھی کہ ان کے سینے پر سر رکھے بغیر مجھے اور وانی کو نیند نہیں آتی۔۔۔۔۔لیکن وہ تو بس مجھے ڈانٹ کر بھگا دیتے۔۔۔۔"
ہانیہ نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے۔
"میں نے خود سے وعدہ کیا تھا انس کہ میں بڑی ہو کر آرمی میں جاؤں گی۔۔۔ان کے جیسی بہادر بنوں گی ۔۔۔۔تو شائید تب وہ مجھے پہلے جیسے گلے لگا کر کہیں گے کہ میں ان کا غرور ہوں اور وہ اس دنیا میں سب سے زیادہ بس ہم تینوں کو چاہتے ہیں۔۔۔۔"
ہانیہ کی آواز غم سے بہت زیادہ تر ہو چکی تھی۔
"لیکن انہوں نے مجھے آرمی میں جانے نہیں دیا۔۔۔۔کیونکہ وہ بہادر نہیں انس ایک ڈرپوک انسان ہیں۔۔۔بہت زیادہ ڈرپوک۔۔۔۔"
اب کی بار ہانیہ اپنی مٹھیاں غصے سے بھینچ چکی تھی۔
"ناو آئی ہیٹ ہم انس۔۔۔۔جو انہوں نے وانی کے ساتھ کیا فار دیٹ آئی ہیٹ ہم۔۔۔"
ہانیہ نے دانت کچکچا کر کہا اور انس نے اسے بے بسی سے دیکھا۔
"میں وجدان سر کو بہت زیادہ نہیں جانتا۔۔۔۔لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ شخص بزدل نہیں ہے بس اپنی بیوی اور بیٹیوں کو کھونے سے ڈرتا ہے۔۔۔۔جانتی ہو کیوں؟کیونکہ وہ خود سے اور ہر چیز سے زیادہ تم تینوں کو چاہتا ہے۔۔۔۔اس بات کا اظہار نہیں کرتا لیکن تم تینوں کے لیے وہ مر بھی سکتا ہے۔۔۔۔میں اتنا ہی کہوں گا ہانیہ کبھی بھی اپنے باپ کی محبت پر شک نہ کرنا۔۔۔۔وہ تمہیں تم سے بھی زیادہ چاہتے ہیں۔۔۔"
انس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ ہانیہ بس کھوئے ہوئے اس کی کہی ہر بات پر غور کرتی جا رہی تھی۔
                      ❤️❤️❤️❤️
ایمان کو آج معراج لان میں لے کر آیا تھا۔ویسے تو ایمان باہر نہیں نکلتی تھی لیکن آج آپ نے دوست کی بات مان کر آ گئی تھی اور اب بہت زیادہ انجوائے کر رہی تھی۔
"تو تم فیل ہو گئے تھے؟"
ایمان نے لان میں موجود جھولے پر بیٹھتے ہوئے ہنس کر پوچھا۔
"ہہہ۔۔۔ہاں ہو گیا تھا۔۔۔۔اا۔۔۔اور ٹیچر نے کہا ککک۔۔۔۔کہ میں ورلڈ ریکارڈ بنا سسس۔۔۔سکتا ہوں فیل ہونے کا۔۔۔"
معراج کی بات پر ایمان قہقہ لگا کر ہنس دی۔
"کوئی بات نہیں میں بہت لائق ہوں تمہیں پڑھاؤں گی نا تو فسٹ آؤ گے تم۔۔۔"
ایمان نے اترا کر کہا۔
"ہاں ۔۔۔ننن۔۔۔۔نیچے سے فرسٹ آؤں گا۔۔۔"
معراج نے منہ بنا کر کہا تو ایمان پھر سے ہنس دی اور اتنے عرصے میں پہلی مرتبہ اسے یوں ہنستا کھلکھلاتا دیکھ کر خادم ان کے پاس آیا۔
"واہ خوب انجوائے ہو رہا ہے ۔۔۔"
خادم کی آواز پر ایمان کی ہنسی گل ہو چکی تھی اور اب وہ بس کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے خادم کو دیکھ رہی تھی۔
"ایمان بیٹا آپ اندر جاؤ مجھے معراج سے بات کرنی ہے۔۔۔"
ایمان نے فورا خادم کا حکم مانا اور گھر کے اندر چلی گئی۔
"تمہارا شکریہ معراج تم میری ایمان کی خوشیاں واپس لے آئے ورنہ میں تو امید ہی ہار چکا تھا۔"
معراج انکی بات پر مسکرایا تھا۔
"ششش۔۔۔۔شکریہ کی ضرورت نہیں انکل۔۔۔اااایمان دوست ہے میری۔۔۔۔ممم۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے اس کو خخخ۔۔۔خوش دیکھ کر ۔۔۔۔"
خادم مسکرا دیا۔
"دراصل میں اسے اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے وقت ہی نہیں دے پاتا اس لیے وہ ہچکچاتی ہے مجھ سے لیکن میں حیران ہوں معراج کہ اتنے کم وقت میں تم میری بیٹی کی خوشی بن گئے۔۔۔۔اس لیے میری ایک خواہش ہے معراج ۔۔۔"
"ججج۔۔۔۔جی انکل۔۔۔"
معراج خواہش کی بات سن کر گھبرایا تھا۔
"بیٹا میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کے چہرے پر یہ مسکان ہمیشہ رہے اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارا اور ایمان کا نکاح کر دوں۔۔۔"
خادم کی بات پر معراج کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"للل۔۔۔لیکن انکل۔۔۔"
"میں جانتا ہوں بیٹا کہ بیٹی کا باپ ہونے کے ناطے مجھے یہ بات نہیں کرنی چاہیے لیکن میری بیٹی کی خوشیاں مجھے خود غرض بنا رہی ہیں معراج میں جانتا ہوں کہ تم اسے ہمیشہ خوش رکھو گے کیونکہ تم بہت زیادہ اچھے انسان ہو ۔۔۔۔"
معراج انکی بات پر خاموش ہو گیا۔
"مم ۔۔۔میں بڑے بابا سس۔۔۔سے بات کروں گا انکل ۔۔۔۔ووو وہ ضرور مان جائیں گے ۔۔۔۔"
خادم نے معراج کو اپنے گلے سر لگایا اور کندھوں سے پکڑ کر فخریہ مسکان کے ساتھ اسے دیکھا۔
"شکریہ میرے بیٹے تم مان ہو میرا اور مجھے فخر ہے کہ تم سچ میں میرے بیٹے بننے والے ہو۔۔۔۔"
خادم کا فخر دیکھ کر معراج مسکرا دیا۔
"میں جانتا ہوں کہ تم بھی ایمان کو پسند کرتے ہو ،کرتے ہو ناں۔۔۔؟"
خادم کے سوال پر معراج شرما دیا اور آہستہ سے ہاں میں سر ہلایا۔
"ہاہاہا۔۔۔ ماشاءاللہ دعا ہے تم دونوں ہمیشہ خوش رہو ان شاءاللہ۔۔۔"
خادم نے معراج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو معراج مسکرا دیا۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آج جاتے ہی وہ شایان سے اس بارے میں بات کرے گا اور اسے یہ بھی بتائے گا کہ ایمان اسکی بھی خواہش تھی۔
                    ❤️❤️❤️❤️
تین دن ہو گئے تھے راگا کو وہاں سے گئے ہوئے۔پہلے تو وانیا نے سوچا کہ اس کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے بھاگ جائے۔
لیکن پھر اس کا ہمیشہ والا خوف اس خیال کے آڑے آ چکا تھا اگر پھر سے وہ کال یا کسی اور آدمی کے ہاتھ لگ جاتی تو اس مرتبہ تو اسے بچانے والا بھی وہاں کوئی نہ ہوتا۔
اسے یاد آیا کہ کس طرح راگا نے ہر پل اس کی حفاظت کی تھی۔کس طرح اس پر ہر حق ہوتے ہوئے بھی اس نے وانیہ سے کوئی زور زبردستی نہیں کی تھی۔کس طرح اسکو دیکھتے ہی وانیا کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا۔
لیکن کیا یہ سب اسے اچھا بنانے کے لیے کافی تھا؟کیا وہ بھول جاتی کہ چاہے اس نے وانیا کہ لیے بہت کچھ کیا تھا ہے تو وہ ایک قاتل ہی۔۔۔
اپنے دل و دماغ کے درمیان چلنے والی اس جنگ پر وانیا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔بیڈ پر لیٹے لیٹے اس کا دھیان اپنی کلائی پر بندھے گلابی دھاگے پر گیا جو اسے ہانیہ نے باندھا تھا۔
"کاش تم یہاں ہوتی ہانی تو میں اتنی بے بس نہ ہوتی۔تم کتنی بہادر ہو ہانی،کتنی عقل مند۔۔۔۔اور میں۔۔۔۔ میں بہت بے وقوف اور ڈرپوک ہوں ہانی۔۔۔"
وانیا اپنی بہن کو یاد کرتے ہوئے اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔
"میں کیا کروں ہانی مجھے کوئی سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں؟پلیز تم مجھے ڈھونڈ لو نا۔۔۔"
وانیہ نے دھاگے کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا اور رونے لگی۔روتے ہوئے وہ کس وقت سو چکی تھی اس کا اسے بھی اندازہ نہیں ہوا۔
راگا جو تقریباً رات کے دس بجے گھر واپس آیا تھا سب سے پہلی نگاہ اس کی اپنی بیوی پر پڑی تھی جو معصومیت سے چہرے کے نیچے ہاتھ رکھے سو رہی تھی۔
راگا کو موڈ اس وقت سخت قسم کا خراب تھا۔سلطان سے دشمنی مول لینے کے لیے اس نے جس دھماکے کو روکنا تھا اسے پہلے ہی کوئی اور سلطان کے آدمیوں کو مار کر روک چکا تھا۔اس وقت راگا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے وہ اپنا مقصد پورا کرے۔
گہرا سانس لے کر اس نے ہلکا سا کمبل ہٹایا اور وانیا کے ساتھ لیٹ کر اسے خود میں چھپا لیا تھا۔اسے محسوس کرتے ہی سکون کی ایک لہر راگا کے وجود میں دوڑ گئی تھی۔
"تم اس جہنم میں بھی میرا سکون ہو وانیا عماد بنگش،میری پری۔۔۔"
راگا نے اپنے ہونٹ اس کے بالوں پر رکھے اور گہرا سانس لے کر اس کی پرسکون خوشبو کو خود میں اتارنے لگا۔
"آپ واپس آگئے؟"
وانیہ کی نیند میں ڈوبی آواز راگا کے کانوں سے ٹکرائی تھی۔
"ہاں میری جان۔۔۔۔"
راگا نے اسکا ماتھا چوم کر محبت سے کہا۔
"آپ مجھے جانے دیں نا ورنہ میں خود سے ہی لڑ لڑ کر مر جاؤں گی۔۔۔۔کیا آپ نہیں جانتے جن کی آگ پری کے پر جلا دیتی ہے۔۔۔۔آپ کی آگ نے بھی میرے پر جلا دیے اب یہ مجھے بھی جلا دے گی۔۔۔"
وانیا آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی اور راگا اس کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔اتنا تو وہ اتنے عرصے میں سمجھ چکا تھا کہ وانیا نیند میں باتیں کرتی ہے ۔
"یہ جن بہت زیادہ خود غرض ہے جاناں یہ تمہیں کبھی بھی خود سے دور نہیں جانے دے گا کبھی بھی نہیں۔۔۔اگر تم اس کی آتش میں جل جاؤ گی نا تو بھی تمہاری راکھ کر سینے سے لگا لے گا۔۔۔لیکن تمہیں کبھی نہیں جانے دے گا۔۔۔"
راگا نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھ کر کہا اور سکون سے اپنی آنکھیں موند گیا۔
                   ❤️❤️❤️❤️
سالار کو گھر واپس آتے رات کے دس بج چکے تھے۔اس کی پارٹی کے ممبران اسے عوام کے مسائل سے آگاہ کرتے رہے تھے اور سالار اب خود سے وعدہ کر چکا تھا کہ ان مسائل کو حل کرنے کی اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا۔گھر واپس آتے ہی جمال پریشانی سے اس کے پاس آیا۔
"نمبر کیوں بند تھا آپ کا بھائی اور آپ میرے بغیر کیوں گئے تھے؟"
جمال کی پریشانی پر سالار مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں جمال فکر مت کرو اپنی حفاظت خود کر سکتا ہوں میں۔۔۔اور موبائل تو میں نے میٹنگ کی وجہ سے بند کیا تھا ،کیوں خیریت؟"
سالار نے اسکی پریشانی دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بھائی وہ جنت شام سے آئی ہے اور آپ کا انتظار کر رہی ہے۔۔۔"
جنت کے نام پر ہی سالار ٹھٹکا تھا۔
"جنت کس کے ساتھ آئی۔۔۔۔؟"
"میرے ساتھ۔۔۔"
ایک عورت کی آواز پر سالار نے فوراً پلٹ کر اپنے سامنے کھڑی اس عورت کو دیکھا۔ایک پل لگا تھا سالار کو اسے پہچاننے میں۔
"جانو خالہ۔۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر کہا تو جانان اس کے پاس آئی اور روتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔اج کتنے سالوں کے بعد وہ اپنے لاڈلے بھانجے کو دیکھ رہی تھی جو ماں سے بھی زیادہ اپنی جانو خالہ سے پیار کرتا تھا۔
"کتنے بڑے ہو گئے ہو تم۔۔۔۔"
جانان نے اس سے دور ہو کر نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سالار کو دیکھا۔
"آپی کیسی ہیں سالار؟"
جانان کے پوچھنے پر سالار نے نرمی سے ان کی آنکھوں سے آنسو پونچھ دیے۔
"بلکل ٹھیک ہیں خالہ اور فکر مت کریں بہت جلد میں سب ٹھیک کرکے انہیں یہاں لے کر آؤں گا۔"
جانان نم آنکھوں سے مسکرائی اور ہاں میں سر ہلایا۔سالار کا دھیان جنت پر گیا جو دروازے میں منہ بسورے کھڑی تھی۔
"غصہ ہے تم سے شام سے انتظار کر رہی ہے وہ تمہارا،شایان گھر نہیں تھے تو میں اسے یہاں لے آئی۔۔۔"
سالار انکی بات پر مسکرایا۔
"آئیں خالہ اندر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔"
سالار نے جانان جو کندھے سے پکڑ کر کہا۔
"نہیں بیٹا مجھے گھر جانا ہے معراج اکیلا پریشان ہو رہا ہو گا۔۔۔۔میں بس تم سے ملنے آئی تھی اب چلوں گی۔۔۔"
جانان نے محبت سے اسکا گال تھام کر کہا تو جانے کی بات سن کر جنت آگے بڑھی۔
"تم یہیں رکو جنت سالار تمہیں گھر چھوڑ دے گا۔"
جانان نے سوالیہ نظروں سے سالار کو دیکھتے ہوئے کہا تو سالار نے ہاں میں سر ہلایا۔
"جمال تم خالہ کو چھوڑ آؤ۔۔۔"
"ارے نہیں ڈرائیور کے ساتھ آئی ہوں میں چلی جاؤں گی لیکن تم جلد ہی جنت کو گھر چھوڑ جانا۔۔۔۔"
جانان نے مسکرا کر کہا اور سالار کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلی گئی۔سالار نے جنت کو دیکھا جو دانت پیس کر سالار کو دیکھ رہی تھی۔
"بہت ناراض ہوں میں آپ سے۔۔۔۔"
اسکی بات پر سالار مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
"جہاں تک مجھے یاد ہے کسی بات کا اقرار کرکے تم نے میری ناراضگی کو مٹانا تھا نہ کہ خود ناراض ہونا تھا۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر اس کو یاد کروایا۔
"کیوں کوئی اقرار کروں میں؟آپ نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے؟کبھی کچھ سپیشل کیا ہے میرے لیے؟"
جنت نے اترا کر پوچھا اور اس کی شرارت کو سمجھتا سالار مسکرا دیا۔
"کیا سپیشل چاہیے تمہیں۔۔۔"
جنت نے ٹھوڈی پر ہاتھ رکھ کر سوچا پھر آسمان پر موجود ستارے دیکھ کر مسکرا دی۔
"اگر دس منٹ میں بارش ہو گئی تو کروں گی اقرار ورنہ بھول جائیں مسٹر۔۔۔۔"
جنت نے اترا کر کہا اور سالار کو ہکا بکا چھوڑ کر اندر اپنے سونو کے پاس چلی گئی۔۔
"جمال جمال ۔۔۔ "
"جی بھائی۔۔۔"
سالار کے بلانے پر جمال جلدی سے وہاں آیا۔
"میرے لان میں بارش ہونی چاہیے جمال۔۔۔۔"
"بارش ۔۔۔!!!"
جمال نے حیرت سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں پر ستارے نکلے ہوئے تھے۔
"ہاں بارش ۔۔۔۔دس منٹ ہیں تمہارے پاس۔۔۔"
سالار نے مسکرا کر حکم اور جمال کو مشکل میں ڈال کر اندر چلا گیا۔

   0
0 Comments